سندھ حکومت کی فرقہ واریت کی آگ لگانے والے فیصلیں۔

تحریر: جنید بلوچ

جب 21 مارچ کو سندھ بھر میں لاک ڈاون کا فیصلہ کیا گیا جیسے اسکولز،کالج،یونیروسٹیوں پر پابندی تھی وہی کاروباری سرگرمیاں اور مذہبی جگہوں پر سخت پابندیاں لگائی گئی تھی۔ صوبہ سندھ میں کوئی وزیر داخلہ نہیں ھے وزارت داخلہ سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ کے پاس ھے اور سائیں کی جانب سے آئی جی سندھ اور کراچی شہر کے تمام ایس پی اور ایس ایس پی کو ہدایت جاری کی گئی کہ نماز جمعہ کو محدود نمازیوں کے ساتھ پڑھا جائے جب 27 مارچ کو پہلا جمعہ ھوا تو کراچی میں بولٹن مارکیٹ میں ایک مسجد پر سندھ پولیس نے چھاپہ مارکر امام صاحب کو گرفتار کرلیا اور نمازیوں کو جمعہ ادا کرنے نہ دی گئی جس پر لوگوں نے سخت مذمت کی، لیکن لوگوں نے حکومتی احکامات کے پابندی کی بہت سی مساجد میں محدود نمازیوں کے ساتھ نمازیں پڑھائی گئی بہت سے لوگوں نے مساجد کے بجائے گھروں میں نماز پڑھا، اسی دوران جب 3 اپریل کو لیاقت آباد میں جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھائی جارہی تھی تو علاقے کے تھانے نے اس مسجد پر چھاپہ مارا اور نماز جمعہ میں خلل پیدا کی اور مسجد کے امام صاحب کو گرفتار کیا جس پر لوگوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن پھر بھی لوگوں نے حکومتی احکامات کی پاسداری کی۔

سندھ کے وزیر اعلی نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویوں میں کہا کہ سندھ میں اور پورے ملک کرونا کے پھیلاو کی وجہ تبلیغی جماعتیں ھیں جس پر لوگوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن حقیقت اسکے برعکس تھی سندھ کے وزیر اعلی مسلسل ایک ہی فرقہ کو نشانہ بنارھے تھے اور سندھ حکومت تبلیغیوں کیخلاف پروپیگینڈا کررہی تھی اور سخت احکامات جاری کررہی تھی، رمضان کے مہینے میں جمعہ کے دنوں میں بھی مسلسل 12 بجے سے 3 بجے تک سخت لاک ڈاون کراچی میں جاری رہا جسکی وجہ سے جمعے کے بڑے اجتماعات نہیں ھورھے تھے اور مسلسل قانون کی پاسداری کی جارہی تھی،

جو ہی 21 رمضان المبارک آئی تو وہی ھوا جس کا ڈر تھا سندھ حکومت نے اہل تشعیوں کو جلسہ جلوس کی اجازت دے دی اور 21 رمضان المبارک کو اہل تشعیوں نے بڑے جوش وخروش سے یوم علی منایا اس جلوس میں نہ تو ایس او پیز کا خیال کیا گیا نہ ہی سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال کیا گیا حیرت کی بات ھے سندھ حکومت مسلسل انکار کررہی تھی کہ کل کوئی جلوس نہیں نکلے گا اگر نکلا تو سخت کاروائی کی جائیگی بجائے سندھ حکومت قانون پر عمل درآمد کراتی لیکن انکو فل پروف سیکیورٹی دی گئی 21 رمضان المبارک کو ہمیں وہ سندھ پولیس کہی نظر نہیں آئی جو مساجد پر چھاپہ مارکر امام صاحب اور مساجد کے منتظمین کو گرفتار کرتی تھی بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے انکو سیکیورٹی دے رہی تھی ایک طرف مسلسل سندھ حکومت کے ایک فرقے کیخلاف سخت فیصلے اور سخت کاروائیاں کررہی تھی تو دوسری طرف ایک فرقے پر مہربان تھی اور بالکل سپورٹ کررہی تھی حکومت کا کام قانون پر عمل درآمد کرانا ھوتا ھے لیکن آج سندھ اور کراچی میں قانون کی دھجیاں اڑائی گئی جس کی وجہ سے کل لیاقت آباد میں سنیوں نے امام بارگاہ کے باہر احتجاج کیا اور جلوس بند کرنے کا مطالبہ کیا احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ایک ہی علاقے میں مساجد بند ھیں لیکن امام بارگاہیں کھلی ھوئی ھیں کتنے حیرت کی بات ھے کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں فرقہ واریت کے نام پر ہزاروں لوگوں کا قتل عام ھوا ھوں لیکن حکومت ایک بار پھر کراچی کو آگ لگانی چاھتی تھی۔ ایک طرف تو سخت لاک ڈاون دیکھنے میں آئی تو دوسری طرف قانون توڑے گئے، حکومت کا کام تمام مذہب اور فرقے کو یکساں نظام دینا اور انکے ساتھ یکساں رویہ اختیار کرنا ھوتا ھیں شیعیوں کے جلوس نکالنے پر مسئلہ نہیں ھیں لیکن مسئلہ قانون کو سب کیلئے برابر کرنا ھیں جس میں سندھ حکومت بری طرح ناکام ھوئی اگر شیعیوں کو جلوس کی اجازت دی گئی تھی اور سیکیورٹی بھی دی گئی بھلا ایک ہی صوبے میں دو الگ الگ قانون کیسے ھوسکتے ھیں؟ تو دوسری طرف سنیوں کے ساتھ بھی یکساں رویہ اختیار کرنا چاھے تھا نہ کہ مساجد کے امام صاحب کو گرفتار کرکے ان پر ایف آئی آر کاٹی جاتی پاکستان میں کسی بھی صوبے میں مساجد پر چھاپہ مارا نہیں گیا نہ ہی کسی اور جگہ پر مسجد کے کیمٹی ممبران یا امام صاحب کیخلاف کاروائی کی گئی ھوں اس طرح کی کاروائیاں صرف سندھ میں ھوئی تاکہ مذہبی نفرت پھیلے اور ایک مرتبہ پھر اس شہر کو آگ لگایا جاسکے۔

“میرے سائیں کو تاریخ میں یاد رکھا جائیگا”

یہ بات ھے 26 فروری 2020 کی جب میں اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ اندرون سندھ گھومنے گیا ھوا تھا تو رات کو کھانے کے بعد جب دوستوں کے ساتھ بیٹھے ھوئے تھے تو فورا فون پر ایک ایس ایم ایس موصول ہوا کہ کراچی میں کرونا کا پہلا کیس سامنے آگیا ھے اور اس ایس ایم ایس بھیجنے والے دوست نے کہا کہ جب آپ واپس آئے تو اپنے ساتھ ماسک وہاں سے ضرور لیکر آئے اپنے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی میں نے حیرانگی سے پوچھا “کیا کراچی میں ماسک نایاب ھوگئے ھیں؟ اسنے کہا بالکل اور قیمت بھی دگنی ھوگئی ھیں ہر چیز پر ذخیرہ اندوزی جاری تھا لیکن کمشنر کراچی آرام کی نیند فرمارھے تھے، خیر صبح ھوئی تو ایک اور ایس ایم ایس موصول ہوا کہ کرونا کے سبب تمام تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل موخر کردی گئی ھیں لوگوں نے اور پرائیوٹ اسکولز ایسوسیشن اس فیصلے کو عجلت میں لیا گیا فیصلہ قرار دے دیا پھر وہ ھوا جسکا ڈر تھا بالآخر سندھ حکومت نے 23 مارچ کو صوبہ بھر میں سخت لاک ڈاون نافذ کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کرلی تاکہ سندھ حکومت عوام کو گھروں تک محدود رکھنے میں کامیاب ھوں ان سب اقدامات لینے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے سائیں کو سراہنا شروع کیا اور ایک دم سائیں کو مسیحا قرار دے دیا گیا اور طرح طرح کی جملوں سے نوازا گیا اس ایک جملے میں ایک یہ جملا بھی تھا کہ “میرے سائیں کو تاریخ میں یاد رکھا جائیگا”۔

لیکن کیا سائیں واقعی مسیحا نکلے؟

سائیں مسیحا نکلے یا نہیں اسکا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑ دیتا ھوں اس لاکڈاون میں سے سب زیادہ متاثر وہ لوگ ھوئے جو روزانہ کی بنیاد پر کماتے تھے سندھ کی حکمران جماعت کے چئرمین نے 21 مارچ کو اعلان کیا کہ ہر غریب دیہاڑی دار کو راشن کی فراہم کیا جائیگا اور راشن کیلئے ایک ارب 14 کروڑ مختص کردئے گئے ھیں اس اعلان کے بعد لوگوں میں ایک امید آگئی لیکن بدقسمتی سے وہی ھوا جسکا ڈر تھا میرے سائیں نے کسی ایک گھر میں بھی راشن فراہم نہیں کیا آج 14 مئی تک بھی سندھ حکومت کی جانب سے کسی کو بھی راشن فراہم نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی “میرے سائیں کو تاریخ میں یاد رکھا جائیگا”۔